واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت امام حسین

 

رضی  اللہ  تعالی  عنہ

 

حسین نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے، پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفے     کے چھوٹے نواسے علی رضی اللہ تعالٰی عنہ  و فاطمہ زہرا   رضی اللہ تعالٰی عنہا  کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ان کے بارے میں رسولِ اکرم      کا ارشاد ہے کہ 'حسین منی و انا من الحسین' یعنی 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی ولادت ہوئی . اس خوشخبری  کو سن کر جناب رسالت مآب     تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دیدی . پیغمبر     کا مقدس لعاب دہن حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبر     کی انکھوں میں آنسو برساتا تھا . اور اسی وقت سے حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے مصائب کاچرچا اہلیبت رسول     کی زبانوں پر آنے لگا.

پیغمبراسلام حضرت محمد     کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  دوسرے حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے . ایک طرف پیغمبر اسلام     جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ابن ابی طالب   رضی اللہ تعالٰی عنہ  جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے، تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر     کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی پرورش ہوئی۔

جیسا کہ حضرت امام حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ حضرت محمد مصطفے     اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے . سینہ پر بیٹھاتے تھے . کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ    کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے .

ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  پشت مبارک پرآ گئے تو سجدہ میں طول دیا . یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیحدہ ہوگیا .اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول     نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کو زمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو رسول     نے حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے ہوں,, مستقبل نے بتادیا کہ رسول     کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی بدولت قائم رہیگا .

امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ابن ابی طالب   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی خانہ نشینی کادور ہے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے . یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا .۵۳ ہجری میں جب حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی عمر ۱۳برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ا بن ابی طالب   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں اور امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے .۴ ہجری میں جناب امیر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے بڑے بھائی تھے۔حضرت حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاساتھ دیا۔

امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سلسلہ امامت کے تیسرے فرد تھے- عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے- آپ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی عبادت, آپ کے زہد, آپ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے باپیادہ کئے- آپ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ     نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  میں میری سخاوت اور میری جرات ہے- چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیاتھا۔

حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیوائوں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو- غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتائو کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کی جاتی تھی- ۔

آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  فوراً  زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی-اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد     پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے-

چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے حاکم شام امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک سخت خط لکھا ، پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ہی سخت خط لکھئے- معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا, میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ہو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاہوں تو بخدا حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  میں مجھے ڈھونڈنے سے کوئی عیب نہیں ملتا- آپ کی اخلاقی جرات , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے- انہوں نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی- اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی۔

جب کوفے والوں نے حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو بہت زیادہ خطوط لکھے تو آپؓ نے کوفے جانے کا ارادہ کرلیا۔ حضرت عبدالرحمن بن حارثؓ نے مشورہ دیا کہ آپؓ کوفہ نہ جائیں کیونکہ وہاں عبیداللہ بن زیاد حاکم عراق موجود ہے۔ بہت ممکن ہے کہ جن لوگوں نے آپؓ کو بلایا ہے وہی آپؓ کے خلاف ہوجائیں۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن عباسؓ نے بھی مشورہ دیا کہ آپؓ بیعت کے لئے مت جائیں۔ اسی طرح آپؓ کے چچا زاد عبداللہ بن جعفرؓ نے مدینہ منورہ سے آپؓ کو خط بھیجا کہ میں آُؓ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ خط دیکھتے ہی اپنے ارادے سے بعض آجائیے۔ لیکن آپؓ نے فرمایا کہ مسلم بن عقیل کا خط آیا ہے کہ ۱۲۰۰۰آدمی ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں اور میرے پاس بھی شرفائے کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط آچکے ہیں لہذا کوئی خطرے والی بات نہیں ہے میرا جانا ہی مناسب ہے۔

آخر کار آپؓ ۳ذی الحج کو مکہ مکرمہ سے بمعہ اہل و عیال اور خاندان کے ہمراہ مکہ سے رخصت ہوئے۔ راستے میں اور لوگ بھی آپؓ کے قافلے میں شامل ہوتے گئے۔ ٹھیک اسی دن کوفہ میں مسلم بن عقیلؓ کو قتل کردیا گیا۔ جب مسلم بن عقیلؓ کے قتل کی خبر پہنچی تو مسلم بن عقیلؓ کے عزیز کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ہم انتقام لیں گے یا بھائی کی طرح مرجائیں گے۔ اس پر حضرت امام حسینؓ نے کہا کہ ہمارے طرف داروں نے بے وفائی کی ہے کوفہ میں ہمارا کوئی نہیں۔ جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے چھوڑدے ہم ہرگز خفا نہ ہوں گے۔ لوگوں نے جب یہ سنا ےو دائیں بائیں کٹنا شروع ہوگئے اور آپؓ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مکہ سے آپؓ کے ساتھ چلے تھے۔

ادھر عبیداللہ بن زیاد نے حربن یزید کو  کہا کہ حضرت امام حسینؓ کو کہیں ٹکنے نہ دینا اور انہیں کھلے میدان کے سوا کہیں نہ اترنے دینا۔ میرا ایک قاصد تمہارے ساتھ رہے گا اور دیکھے گا کہ تم میرے حکم کی تعمیل کررہے ہو یا نہیں۔ حربن یزید نے خط کے مضمون سے حضرت امام حسینؓ کو آگاہ کیا اور کہا میں مجبور ہوں۔ اس کے علاوہ عبیداللہ بن زیاد نے ایک چارہزار کا لشکر اور ایک  ایک ہزار کا لشکر تیار کرکے حضرت امام حسینؓ کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔چنانچہ یکم محرم کو آپؓ کربلا کے مقام پر پہنچے۔ آپؓ نے یہ فاصلہ تقریباً بیس دنوں میں طے کیا۔ چنانچہ دونوں لشکر جو عبید اللہ زیاد نے بھیجے تھے جن کی سربراہی عمروبن سعد اور حربن یزید کررہے تھے آپؓ سے بیعت کے لئے بات چیت شروع کی۔تین چار دن تک بات چیت ہوتی رہی۔ آپؓ نے ان کے سامنے تین شرائط رکھیں

۱۔ مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے میں آیا ہوں۔

۲۔ مجھے یزید سے اپنا معاملہ خود طے کرلینے دو۔

۳۔ مجھے دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کے لئے سرحد پر جانے دو۔

آپؓ کی یہ تینوں شرطیں نامنظور کردی گئیں اور عبیداللہ بن زیاد نے آپؓ کے اوپر پانی بند کرنے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ ۱۰محرم کو حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو مناسب مقامات پر کھڑا کیا اور ضروری وصیتیں فرمائیں اور اپنے مخالف لشکر کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر کی جس کے اقتباس یہ بھی ہے:

"اے کوفیو! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں رسول اللہﷺ کا نواسہ ہوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیٹا ہوں۔ حضرت فاطمہؓ میری ماں اور حضرت جعفر طیارؓ میرے چچا تھے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے اور میرے بھائی کو جوانان اہل جنت کا سردار بنایا ہے۔ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی کبھی کسی مومن کو قتل نہیں کیا۔ میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر بتاؤ تم نے میرے خون کو کس طرح حلال سمجھ لیا ہے۔ میں بیت اللہ کے اندر عبادت میں مصروف تھا تم کوفیوں نے مجھے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور مجھ کو مسلسل خطوط بھیجے کہ ہم تم کو امارت کا حقدار سمجھتے ہیں اور تم سے بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ تمہارے بلانے پر میں آیا ہوں۔ اس وقت میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو قتل نہ کرو اور آزاد چھوڑدو۔ میں مکہ یا مدینہ جاکر مصروف عبادت ہوجاؤں اور اللہ تعالٰی خود اس جہاں میں فیصلہ کردے گا کہ کون حق پر تھا کون ظالم تھا۔"

آپؓ کی یہ تقریر سن کر حر بن یزید نے کہا میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کررہا ہوں اور وللہ میں نے جنت کا انتخاب کرلیا ہے اگرچہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا جائے۔ یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کو  ایڑھ لگائی اور حضرت حسینؓ کے لشکر میں جاملے۔ لیکن دیگر کوفیوں کو کوئی اثر نہ ہوا جس کے بعد جنگ شروع ہوگئی۔ اس وقت حضرت حسینؓ کے ساتھ صرف ۷۲ ساتھی تھے۔ اس جنگ میں ایک ایک کرکے آپؓ کے سارے ساتھی شہید ہوتے گئے جن میں چھوٹے معصوم بچے بھی شامل تھے۔ آپؓ بھی زخمی ہوئے اور ایک تیر آپؓ کے حلق میں پیوستہ ہوگیا۔ آپؓ نے ہاتھ سے وہ تیر کھینچ کرنکالا۔ اس کے بعد آپؓ کا بایاں ہاتھ بھی زخمی ہوا اور کسی نے آپؓ کے شانے پر بھی تلوار ماری جس سے آپؓ لڑکھڑا کر گر پڑے لیکن کسی نے اتنی جرات نہ کی کہ وہ آپؓ کا سر کاٹ دے۔ پھر سنان بن انس نے آگے بڑھ کر آپؓ کا سر تن سے جدا کردیا۔ حضرت جعفر بن علی بن محمد سے مروی ہے کہ شہید ہونے کے بعد دیکھا گیا آپؓ کے جسم پر نیزے کے۳۳ زخم اور تلوار کے ۲۴ گھاؤ تھے۔

یہ حولناک اور کربناک واقعہ یہیں ختم نہیں ہوا آپؓ کے جسم مبارک سے کپڑے اتار لیے گئے اور آپؓ  کو گھوڑے دوڑا کر روندا گیا۔ اس کے بعد تمام مقتولوں کے سر کاٹے گئے اور انہیں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے رکھا گیا۔ عبیداللہ بن زیاد نے اپنی چھڑی بار بار آپؓ کے ہونٹوں پر مارنے لگا جس پر حضرت زیدبن ارقم ؓ چلا اٹھے کہ ان لبوں سے چھڑی ہٹالو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حضورﷺ اپنے ہونٹوں سے  ان ہونٹوں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن زیاد نے کہا اگر تو بوڑھا نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا۔ بعض روایات میں یہ واقعہ یزید کی طرف منسوب ہے۔ پھر حضرت امام حسینؓ کا سر بانس پر نصب کرکے یزید کے دربار بھیجا گیا۔ اس طرح ۱۰ محرم الحرام کو دنیا اسلام کا پہلا سقوط اسلام واقع ہوا۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ  ہوتا ہے ہر کربلا کے  بعد